دس ذوالحجہ(عید کا دن)کے أعمال:
دسویں ذوالحجہ کوعید کا دن ہے اس دن بالخصوص بہت سے أعمال مسنون ہیں:
1- غسل کرنا
-2صاف ستھرے کپڑے زیب تن کرنا
-3خوشبو لگانا۔
-4بغیر کچھ کھائے ہوئے عید گاہ جانا اور واپس آکر قربانی کا گوشت کھانا۔
-5بڑے،بوڑھے،بچوں،عورتوں یہاں تک کہ حیض و نفاس والی خواتین کو بھی عید گاہ لے جانا،
(البتہ عذر والی عورتیں نماز میں شامل نہ ہوکر صرف دعا میں شامل رہیں گی)۔
-6عید گاہ میں نمازادا کرنا اگر عذر ہو تو مسجد میں بھی ادا کرنا جائز ہے۔
-7عید کی نماز میں جلدی کرنا ویسے اس کا وقت طلوعِ شمس کے بعد سے لیکر زوال تک ہے۔
نمازِ عید کا طریقہ:
عید کی نمازسے پہلے کوئی سنت نماز نہیں ہے اور نہ ہی بعد میں ، اور عید کی نماز کے لیے نہ اذان کہی جائیگی اور نہ اقامت۔
عید کی نماز دو رکعتوں پر شتمل ہے ، یہ نماز بارہ (۱۲) زائد تکبیروں کے ساتھ پڑھی جائیگی، پہلی رکعت میں سات اور دوسری میں پانچ تکبیریں قرأت سے پہلے کہی جائیں گی ،
پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ أعلی یا سورہٴ ق اور دوسری میں سورہ غاشیہ یا سورۃ القمر پڑھنا سنت ہے ، اور خطبہ عید نماز کے بعد دیا جائے گا ۔ دیکھئے (بخاری،مسلم،أبوداؤد)
عید کے دنوں میں کھیل کود :
عید میں جائز کھیل کود اور اسلامی نغمے پڑھنا درست ہے البتہ خوشی کو بنیاد بناکر شریعت کے دائرے سے باہر نکل کر کسی بھی عمل کے کرنے کا دین اسلام میں کوئی جواز نہیں۔
تکبیرات کہنا:
" ۹ نوویں ذوالحجہ کی صبح سے لیکر ۱۳ تیرہویں ذوالحجہ کی عصر تک " تکبیرات پڑھنا چاہئے اور تکبیر کے الفاظ یہ ہیں:
اَللّٰہُ أکْبَرْ اَللّٰہُ أکْبَرْ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاللّٰہُ أکْبَرْ اَللّٰہُ أکْبَرْ وَلِلّٰہِ الْحَمْدِ
تہنیت (مبارکباد دینا):
عید کی مبارکباد (تَقَبَّلَ اللّٰہُ مِنَّا وَمِنْکَ) کے ذریعہ دینی چاہئے کیونکہ سلف صالحین سے یہی ثابت ہے۔ (فتح الباری ٥١٧٢،تمام المنہ٣٥٤)
قربانی کا حکم:
قربانی کا ثبوت قرآن وحدیث اور اجماعِ أمت سے ثابت ہے ،
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم یقینا ہم نے آپ کو (حوض) کوثر عطا کیا تو آپ اپنے رب کے لئے نماز پڑھئے اور قربانی کیجئے۔
مدنی زندگی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے برابر قربانی کی ،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے کی (بخاری) اور اس کے بعد سے لیکر آج تک أمت برابر اس پر عمل پیرا ہے۔
قربانی کا جانور:
قرآنِ کریم نے چار قسم کے جانوروں کا ذکر کیا ہے جن کی قربانی کی جائےگی:
اونٹ،گائے،بکری اور بھیڑ ، جو صحیح سالم ہوں اور مسنہ (دو دانت والا) ہوں مگر بھیڑ سال بھر یا اس سے کم کا بھی جائز ہے۔(مسلم) ۔
اسی طرح قربانی کے جانوروں کا درج ذیل عیوب سے پاک ہونا ضروری ہے:
(١) ایسا جانور جس کی ایک آنکھ کی بصارت (نظر) بالکل غائب ہو،دونوں آنکھوں کا اندھا بدرجہ اولیٰ جائز نہیں۔
(٢) ایسا بیمار جانور جس کی بیماری واضح ہو۔
(٣) ایسا لنگڑا جانور جس کا لنگڑا پن بالکل نمایاں ہو۔
(٤) ایسا جانور جو نہایت ہی بوڑھا یا کمزور ہو اور جس کی ہڈیوں میں گودا نہ رہا ہو۔
قربانی کا وقت:
اس کا وقت نمازِ عید کے بعد سے لیکر عید کے چوتھے دن ۱۳ تیرہویں ذوالحجہ غروب آفتاب تک ہے ، اگر کوئی نمازِ عید سے قبل قربانی کرے گا تو وہ قبول نہیں ہوگی۔ (دیکھئے: سلسلة الآحادیث الصحیحة ٦١٧٥)
قربانی کے جانور میں حصے:
اونٹ یا گائے اگر ہدي کے لئے ہوں تو سات افراد کی طرف سے جائز ہوں گے ۔(مسلم) اور اگر أونٹ یا گائے قربانی کے لئے ہوں تو اونٹ میں دس افراد کی بھی شرکت جائز ہے۔(ترمذی،نسائی،ابن ماجہ)
اور اگر قربانی کا جانور بکری یا بھیڑ ہو اور گھر کے ذمہ دار کی طرف سے ذبح کیا جائے تو پورے گھر کی طرف سے کافی ہوگا۔
قربانی کا گوشت:
قربانی کا گوشت خود کھائیں ، دوسروں کو بھی کھلائیں اور ذخیرہ اندوزی بھی جائز ہے۔ (بخاری ومسلم)
البتہ اس کا بیچنا اور اس سے قصاب کو مزدوری دینا جائز نہیں ہے۔
ذبح کا طریقہ:
اگر آدمی میں قربانی کا جانور ذبح کرنے کی صلاحیت ہوتو خود ذبح کرے ورنہ کسی دوسرے مسلمان سے ذبح کروائے ،
ذبح سے قبل چھری تیز کرے اور جانور کو بائیں پہلو پر لٹائے،چھری کو اس کی نظروں سے اوجھل رکھے اور ذبح کرتے وقت یہ دعاء پڑھے:
اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالأرْضَ حَنِیْفًا وَّمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ اِنَّ صَلاَتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ لَا شَرِیْکَ لَہُ وَبِذَلِکَ أمِرْتُ وَأنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ ، اَللّٰھُمَّ اِنَّ ھَذَا مِنْکَ وَلَکَ عَنْ ۔۔۔۔۔۔ (جس کی طرف سے قربانی کرنی ہے اس کا نام لے ) اور " بسم اللّٰہِ اللّٰہ اکبر" کہتا ہوا تیزی سے چھری حلقوم پر چلائے۔
وآخرُ دعوانا ان الحمدُ للہ ربّ العالمین